اردوئے معلیٰ

میری تقدیر میں یوں بارِ الہٰا ہوتا

میری آنکھیں، ترے محبوب کا چہرہ ہوتا

 

سوچتا ہوں کہ مرا کیسے گزارا ہوتا

ترا مداّح نہ ہوتا، تو میں رُسوا ہوتا

 

ترا خورشیدِ ہدایت نہ اگر ہوتا طلوع

ساری دنیا کی فضاؤں میں اندھیرا ہوتا

 

ہاتھ ہوتے، نہ مرے پاؤں، نہ دھڑ ہوتا، نہ سر

کچھ نہ ہوتا میں، فقط چشمِ تماشا ہوتا

 

جب مدینے کی طرف ان کی سواری آتی

اس کو سو آنکھ سے میں دیکھنے والا ہوتا

 

منقلب ہوتا مرا جسم کئی شکلوں میں

کبھی شبنم، کبھی خوشبو، کبھی نغمہ ہوتا

 

کاش ملتا مجھے اُن پاؤں کا اِک لمس انورؔ

کاش میں ذرۂ صحرائے مدینہ ہوتا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔