میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے
اب مرے شیطاں کو نسبت رنج سے ہے غم سے ہے
سارے عالم کی بہاریں اس کی قسمت پر فدا
جس کسی کا بھی تعلق جانِ دو عالم سے ہے
ایک آنسو عشقِ جاناں کی نمائش کر گیا
صرف مجھ کو یہ شکایت اپنی چشمِ نم سے ہے
پھول چہرہ گریہِ شب بے سبب کرتا نہیں
سردئ آتش کو نسبت قطرہِ شبنم سے ہے
ہم خیالِ یار پر ہی مر مٹیں تو کیا عجب
اور تم کو کیا توقع بد نصیبو ہم سے ہے
کیوں نہیں ہے اے تبسم تجھ کو بخشش کا یقیں
تیری نسبت خالقِ کونین کے محرم سے ہے