میرے ہونٹوں پہ ترا نام تری نعت رہے
نوکِ خامہ پہ ترے لطف کی برسات رہے
اب کسی اور طرف ہو نہ توجہ میری
میرا موضوعِ سخن صرف تری ذات رہے
دست بستہ جو درِ شاہِ امم پر گذرے
حاصلِ زیست وہی قیمتی لمحات رہے
حسرتِ دید مچلتی ہے مری پلکوں پر
روز افزوں یہ مرا شوقِ ملاقات رہے
آلِ اطہار کی نسبت ہے مرا سرمایہ
میرے سینے میں سدا اُلفتِ سادات رہے
رفعتِ مدحِ محمد پہ رہا میرا قلم
وقفِ توصیفِ پیمبر مرے رشحات رہے
گوشۂ دل میں رہے تیری محبت کا گہر
تیرا اشفاقؔ تری یاد میں دن رات رہے