میں اشکبار ہوں ناممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جا رہا ہوں بارش میں
دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں
خمارِ شام، غمِ تیرگی، امیدِ سحر
عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں
بجا ہے طعنۂ باطل مری دلیلوں پر
ہزار جہل بھی شامل ہیں میری دانش میں
یہ جبرِ راہ گزر ہے، سفر نہیں میرا
کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں
وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیؔر
بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں