میں بھی کسی کی راہِ طلب کا غبار تھا
میری نگاہ میں بھی کوئی شاہکار تھا
کمزور برگِ زرد بھی کیا پُروقار تھا
جھونکا ہوا کا اس کی طرف بار بار تھا
تقسیم تھی مکان کی دو بھائیوں کے بیچ
سینہ ضعیف ماں کا غموں سے فگار تھا
حیرت میں ہوں وہ کیسی کرامت دکھا گیا
شفاف بن گیا جو کبھی داغدار تھا
تجھ سے قریب ہونے کا اک راستہ ملا
مجھ کو اسی سبب سے گناہوں سے پیار تھا
ہجرت کی اصلیت سے تعلق نہیں کوئی
تم نے جسے قبول کیا وہ فرار تھا
شرما گیا متینؔ حقیقت کو دیکھ کر
آئینہ زندگی کا بڑا داغدار تھا