اردوئے معلیٰ

میں بہک سکوں یہ مجال کیا ، مرا رہنما کوئی اور ہے

مجھے خوب جان لیں منزلیں ، یہ شکشتہ پا کوئی اورہے

 

مری التجا ہے یہ دوستو ، کبھی تم جو سوئے حرم چلو

تو بنا کے سر کو قدم چلو ، کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

 

وہ حبیبِ ربِ کریم ہیں ، وہ رؤف ہیں وہ رحیم ہیں

انہیں فکر ہے مری آپ کی ، انہیں چاہتا کوئی اور ہے

 

بہ جز اُن کے رحمتِ دو جہاں بہ جز اُن کے عرش کا میہماں

یہ ملا جواب کوئی نہیں ، یہ سوال تھا کوئی اور ہے ؟

 

ہے خبر تجھے شہہِ این و آں ، مری وجہِ راحتِ قلب و جاں

نہ ترے سوا کوئی اور تھا ، نہ ترے سوا کوئی اور ہے

 

یہ گمان تھا کئی سال سے ، یہ یقین ہے کئی روز سے

مرے دل سے گنبدِ سبز کا یہ معاملہ کوئی اور ہے

 

جو تمہاری جالی سے متصل ، ہے ستوں کے پیچھے خجل خجل

نہیں میں نہیں وہ مریضِ دل ، نہ مرے سوا کوئی اور ہے

 

میں جو دور ارضِ حرم سے تھا ، ہوئی خلدِ گوش حسیں صدا

ہے اسی میں ماجدِؔ بے نوا ، کہ یہ قافلہ کوئی اور ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات