میں بہک سکوں یہ مجال کیا ، مرا رہنما کوئی اور ہے
مجھے خوب جان لیں منزلیں ، یہ شکشتہ پا کوئی اورہے
مری التجا ہے یہ دوستو ، کبھی تم جو سوئے حرم چلو
تو بنا کے سر کو قدم چلو ، کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
وہ حبیبِ ربِ کریم ہیں ، وہ رؤف ہیں وہ رحیم ہیں
انہیں فکر ہے مری آپ کی ، انہیں چاہتا کوئی اور ہے
بہ جز اُن کے رحمتِ دو جہاں بہ جز اُن کے عرش کا میہماں
یہ ملا جواب کوئی نہیں ، یہ سوال تھا کوئی اور ہے ؟
ہے خبر تجھے شہہِ این و آں ، مری وجہِ راحتِ قلب و جاں
نہ ترے سوا کوئی اور تھا ، نہ ترے سوا کوئی اور ہے
یہ گمان تھا کئی سال سے ، یہ یقین ہے کئی روز سے
مرے دل سے گنبدِ سبز کا یہ معاملہ کوئی اور ہے
جو تمہاری جالی سے متصل ، ہے ستوں کے پیچھے خجل خجل
نہیں میں نہیں وہ مریضِ دل ، نہ مرے سوا کوئی اور ہے
میں جو دور ارضِ حرم سے تھا ، ہوئی خلدِ گوش حسیں صدا
ہے اسی میں ماجدِؔ بے نوا ، کہ یہ قافلہ کوئی اور ہے