میں جو درِ رسول پہ ہو کر خِجَل گیا
گریہ کناں ہوا تو مرا کام چل گیا
کانٹا جو خوفِ حشر کا میرے جگر میں تھا
اُن کا کرم ہوا کہ جگر سے نکل گیا
سوز و گُدازِ عشق بھی وافر تھا اِس قدر
’’شاید جگر حرارتِ عشقی سے جل گیا‘‘
مُشکل پڑی تو آپ نے فوراً کرم کیا
تھاما جو میرا ہاتھ ، میں گر کر سنبھل گیا
دشمن تھا جو حضور کا کل تک ، وہی عمرؓ
بس اک نگاہِ ناز سے، یکسر بدل گیا
لب پر درودِ پاک کے آنے کی دیر تھی
طوفان رنج و غم کا تھا، لمحوں میں ٹل گیا
عشقِ نبی نے آگ لگائی ہے وہ جلیل
عِصیاں کا اِک پہاڑ تھا ، پل میں پگھل گیا