اردوئے معلیٰ

میں جہاں احتجاج کی نہیں ہوں

ایسے اندھے سماج کی نہیں ہوں

 

اچھے عیسی’ہو صاف کہتے ہو

میں کسی بھی علاج کی نہیں ہوں

 

پاس رکھ اپنے،، وصل ،، بھیک نہ دے

بھوکی ایسے اناج کی نہیں ہوں

 

کینہ رکھتی ہوں دل میں ،،انساں ہوں

میں خدا کے مزاج کی نہیں ہوں

 

عشق کی ایسی لت پڑی ہے کہ اب

میں کسی کام کاج کی نہیں ہوں

 

میں ہوں قائل سخن میں جدت کی

میں پرانے رواج کی نہیں ہوں

 

مجھ پہ اپنی مری حکومت ہے

میں ترے سامراج کی نہیں ہوں

 

بچپنے میں ہوا تھا عشق مجھے

میں جو پاگل ہوں آج کی نہیں ہوں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ