میں حمدِ باری کروں تو کیسے ثناء کے قابل زباں نہیں ہے
لبوں پہ میرے ہیں لفظ لیکن خیال عالی بیاں نہیں ہے
ہر ایک شے میں تری نمو ہے ، جدھر بھی دیکھوں بس ایک تو ہے
جہاں میں ہر سو ترے ہی جلوے ، نہیں وہ جا تو جہاں نہیں ہے
ترا ہی حامد ہر اک شجر ہے ، ترا ہی ذاکر حجر حجر ہے
ہے وصف تیرا ہی سب گلوں میں مگر تو پھر بھی عیاں نہیں ہے
فلک پہ جتنے ہیں چاند تارے ، ہیں تیری قدرت کے یہ اشارے
تری خدائی کی حد نہیں ہے ، مرے خدا تو کہاں نہیں ہے
یہ بادلوں سے برستا پانی ، یہ رات دن کی عجب کہانی
یہ سب تری ہی عنایتیں ہیں اور اس قدر کہ گماں نہیں ہے
زمیں کے اندر بھی تیری خلقت ، زمیں کے باہر تری حکومت
مکینِ قلبِ سلیم ہے تُو ، مکیں ہے لیکن مکاں نہیں ہے
کرم یہ ہم پر کیا ہے تو نے ، حبیب اپنا دیا ہے تو نے
نوازشیں تیری کیا بیاں ہوں کہ اتنی عمرِ رواں نہیں ہے
الٰہی مجھ کو جنوں عطا کر ، دے فقر ، سوزِ دروں عطا کر
عطا ہو چشمِ رواں بھی مجھ کو ، نہ ہو جو لب پر فغاں نہیں ہے
رحیم بھی تو ، کریم بھی تو ، رؤف بھی تو ، علیم بھی تو
ہے قلبِ آسیؔ سے تو ہی واقف کہ تجھ سے کچھ بھی نہاں نہیں ہے