میں رہوں نغمہ طرازِ شہِ دیں حینِ حیات
المدد خالقِ کونین و مجیب الدعوات
اس کے اقوال سے واضح ہوں خدا کی آیات
اسوۂ پاک پہ چلنے سے ملے راہِ نجات
پنجگانہ کی ملی آپ کو شاہی سوغات
بھول سکتے نہیں ہم آپ کی معراج کی رات
جلوہ گستر سرِ محفل وہ ہوا ہے جب سے
مل گیا خاک میں سب سحر و فسونِ ظلمات
حسنِ ذاتی و صفاتی کا بیاں ہو کیسے
استعارے ہیں مناسب نہ بجا مصطلحات
اس معلم سے کھلے رازِ حقائق ورنہ
تنگ انسان کا تھا دائرۂ معلومات
نہ دلا یاد مجھے قصۂ طائف ہمدم
ورنہ لگ جائے گی اشکوں کی جھڑی بے برسات
فلکِ پیر کے رخشندہ ستاروں کی عوض
لے لوں طیبہ کے چمکتے ہوئے خاکی ذرات
ذاتِ اقدس پہ سدا بھیجتے رہتے ہیں درود
اہلِ ایمان ہیں جتنے بہ شمولِ جنات
نعت گوئی کے سبب رب نے مجھے بخش دیا
فردِ اعمال میں با وصف سیہ مندرجات
خدمتِ قدس میں کچھ حال بیاں کرتا ہوں
ہے زباں گنگ مری گرچہ بہ فرطِ جذبات
مستِ صہبائے تعیش تری امت شاہا
اب نمازیں ہیں نہ روزے ہیں نہ حج ہے نہ زکوٰۃ
ترے قرآن کو رکھا ہے بہ طاقِ نسیاں
روز و شب منہمکِ لہو و لعب ہے ہَیہات
حق پرستی نہ رہی دین پسندی نہ رہی
بے خیالی میں ہے پھر بندگی لات و منات
دھیان عقبیٰ کا ہے کچھ اور نہ خوفِ انجام
مختصر یہ کہ ہے در کشمکشِ موت و حیات
اک نظرؔ آپ ہی ڈالیں جو کرم کی اس پر
ہے یقیں اب بھی سدھر سکتے ہیں بگڑے حالات