میں رہ کی خاک بن کران کی گلیوں میں پڑی ہوتی
یا سنگ آستاں بن کر کہیں در پر جڑی ہوتی
شہ لولاک جس جنگل میں ریوڑ لے کے جاتے تھے
خدایا ! کاش اس جنگل میں میری جھونپڑی ہوتی
گزرتے آپ گلیوں سے میں گلیاں چومتی پھرتی
زیارت ہو تو جاتی ، گو گھڑی یا دو گھڑی ہوتی
نکلتا چاند حجرے سے تو ،سورج کو گہن لگتا
وہ کملی کالی کاندھے پر تو ہاتھوں میں چھڑی ہوتی
وہ دست رحمت عالم مرے اشکوں تلک آتا
میں ان کی جالیوں کے سامنے روتی کھڑی ہوتی
نظر جو مجھ پہ پڑ جاتی مقدر ہی سنور جاتے
مری ہستی کے صحرا میں بھی رحمت کی جھڑی ہوتی
ہوا کے ساتھ شاخیں جھومتیں صل علیٰ پڑھتیں
کھجوروں کی قطاروں میں کہیں میں بھی کھڑی ہوتی
میں سر قدموں پہ رکھ کر درد سارے ان سے کہہ دیتی
مسرت سے مری آنکھوں میں اشکوں کی لڑی ہوتی
میں اس مٹی میں ہوتی دفن فوزی ، خوش نصیبی سے
مدینے میں جنم لیتی ، مدینے میں بڑی ہوتی