اردوئے معلیٰ

میں عشق عشق کی گردان میں پڑا ہوا تھا

پرانا جسم کہ سامان میں پڑا ہوا تھا

 

تمھارے ساتھ کئی دن گزارنے کے بعد

خیال رات کو دالان میں پڑا ہوا تھا

 

ہمارے مسئلے سارے نمٹ چکے تھے مگر

معاملہ کوئی تاوان میں پڑا ہوا تھا

 

میں ساری رات اسی کشمکش میں سو نہ سکا

نظارا دن کا بیابان میں پڑا ہوا تھا

 

قلم نے تیرے ہی اعزاز میں کہا ہوا ہے

قصیدا لکھا تری شان میں پڑا ہوا تھا

 

تمام کرسیاں تو بچ گئیں ہیں بارش سے

مگر وہ صوفہ جو اک لان میں پڑا ہوا تھا

 

تباہی کو بھی کسی سے نبھاہ کرنا تھا

ہمارا پاؤں ہی طوفان میں پڑا ہوا تھا

 

وہاں مکان بنانے کا ہے ارادہ مرا

پلاٹ ایک جو مردان میں پڑا ہوا تھا

 

معاملات کئی اور زندگی کے تھے

جو فائدہ تھا وہ نقصان میں پڑا ہوا تھا

 

ہزار مشکلیں جھیلیں مگر زبیر اب بھی

عجیب رخنہ مری جان میں پڑا ہوا تھا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ