میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
میں محفل حرم کے آداب جانتا ہوں
جو ہیں خدا کے پیارے میں ان کو چاہتا ہوں
اُن کو اگر نہ چاہوں تو اور کس کو چاہوں
ایسا کوئی مسافر شاید کہیں نہ ہوگا
دیکھے بغیر اپنی منزل سے آشنا ہوں
کوئی تو آنکھ والا گزرے گا اس طرف سے
طیبہ کے راستے میں ، میں منتظر کھڑا ہوں
یہ روشنی سی کیا ہے، خوشبو کہاں سے آئی؟
شاید میں چلتے چلتے روضے تک آگیا ہوں
طیبہ کے سب گداگر پہچانتے ہیں مجھ کو
مجھ کو خبر نہیں تھی میں اس قدر بڑا ہوں
اقبال مجھ کو اب بھی محسوس ہو رہا ہے
روضے کے سامنے ہوں اور نعت پڑھ رہا ہوں