میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے
تصور میں مرے بس مصطفیٰ کی ذات ہوتی ہے
چھلک جاتے ہیں آنکھوں سے یہ اشکوں کے حسیں موتی
کہ جب سرکار کے لطف و کرم کی بات ہوتی ہے
مَیں اپنے دل کے آنگن میں کبھی محفل سجاتی ہوں
تو میرے چار سو جلوؤں کی اک بارات ہوتی ہے
مرے افکار میں الفاظ ایسے ہی چمکتے ہیں
کہ جیسے تیرگی میں جگمگاتی رات ہوتی ہے
مجھے شعر و سخن کا کچھ سلیقہ تو نہیں آتا
عطا سرکار کی میرے لئے سوغات ہوتی ہے
مَیں مدحت کے لئے الفاظ کے موتی پروتی ہوں
لڑی پیاری سی بن جائے تو ان کی نعت ہوتی ہے
میں نازاں ہوں مقدر پر کہ مِل جاتا ہے بِن مانگے
مری جھولی میں اُن کے فیض کی خیرات ہوتی ہے
سو لے کر سُوت کی اَٹی یہ ہمت ناز نے کر لی
خریداروں میں مفلس کی بھی کیا اوقات ہوتی ہے