میں نے جب شعر ترے درد میں ڈھالے آخر
پڑ گئے شعر کو بھی جان کے لالے آخر
شدتِ کرب سے کھنچتی ہیں رگیں ٹوٹتی ہیں
اس قدر ضبط مجھے مار نہ ڈالے آخر
مشورہ ہے کہ مرے درد کا درماں سوچو
اس سے پہلے کہ مجھے موت منالے آخر
خود کشی عین مناسب ہے مرے چارہ گرو
موت آئے تو کہاں تک کوئی ٹالے آخر
میں تجھے ڈھانپ کے ٹھہرا رہا میدان میں اور
میرے حلقوم تلک آ گئے بھالے آخر
کوئی توجیہہ نہیں تیری جفا کی ملتی
پڑ گئے سوچ کے پاؤں میں بھی چھالے آخر
قید کہتا ہے پناہوں کو مری جان تو سن
کر دیا میں نے تجھے تیرے حوالے آخر
تو کہ آزاد ہے اب شہرِ ہوس میں ناصر
مر گئے آج ترے چاہنے والے آخر