میں پیرِ باولی کو بھلا کیسے داد دوں
میری بساط کیا میں تعارف میں کچھ کہوں
مطلوب جن کا رب کی رضا اور بندگی
عشق نبی سے اِن کی عبارت ہے زندگی
ہر راحتِ حیات کو بس دیں پہ واردیں
پھر بھی خود احتسابی میں ہر وقت گم رہیں
ہر لفظ نورِ معرفت ، ہر بات معتبر
الفاظ ہیں کہ سوز میں لپٹے ہوئے گہر
آقا کے در کی چاکری ہے آنکھ کا خمار
ہر ریشہِ وجود میں بستا ہے اُن کا پیار
ہاتھوں میں ہاتھ جب بھی کسی کو عطا کیا
ایسا لگے کہ سارا کچھ اُس پہ لٹا دیا
بیٹھے رہیں تو جسم مرا وجد میں رہے
بولیں اگر تو روح کو اِک چین سا ملے
یہ رونقیں جہان کی دُنیا کی چاہتیں
اُن کے قدوم میں کبھی لغزش نہ لاسکیں
ذکرِ خدائے پاک سے بس لو لگائی ہے
یہ ذکر ہی تو زندگی بھر کی کمائی ہے
وقفِ ثنائے رحمتِ عالم ہے اُن کی ذات
آقا کی نسبتوں سے ہے ہر نسبتِ حیات
سجدے میں ہے جبین تو جذبے قیام میں
کیفیتیں بیان ہوں کیسے کلام میں
لب پہ دُعا ہے مولا مرے جو مجھے دیا
میرے ہر ایک صاحبِ نسبت کو ہو عطا
اب پاؤں میں بھی روشنی اِس آفتاب سے
نورِ شعور بھی ملے اِن کے نصاب سے
نظروں میں مستقل رہوں رفعت نواز کی
بیعت نصیب ہو مجھے اِن کے گداز کی
گلشن یہ باولی کا ہمیشہ ہرا رہے
کاسہ شکیلؔ فیض سے میرا بھرا رہے