میں چلتا ہوں جو سر اپنا اُٹھا کے
کرم مجھ پر ہیں میرے مصطفیٰ کے
اُسی جلوے میں گُم ہوں میں اگرچہ
’’وہ اوجھل ہو گیا جلوہ دکھا کے‘‘
اِنہی سے تو ہوا روشن زمانہ
یہ جلوے ہیں حبیبِ کبریا کے
اِسی اُمید پر جیتا ہوں آقا !
نوازیں گے مدینے میں بُلا کے
ہے خوش بختی کہ رہتے ہیں لبوں پر
ہمیشہ زمزمے صلِ علٰی کے
پریشانی وہیں پر ختم ہوگی
پہنچ جائیں گے جب نیچے لِوا کے
زمانہ کیا مجھے سمجھا ہے تنہا ؟
نہیں ! میں سائے میں ہوں مصطفیٰ کے
مرا نوکر ہے مولا ! در گزر کر
کہیں وہ کاش ایسا مُسکرا کے
رہا حق لب پہ دورِ پر فتن میں
مقلد ہیں شہیدِ کربلا کے
علمدارِ وفا کا نام آیا
ہوئے جب تذکرے اہلِ وفا کے
جلیل اپنا عقیدہ تو یہی ہے
خُدا دیتا ہے صدقے مصطفیٰ کے