میں کہ سگِ بلال ہوں ، مجھ پہ اندھیر چھائے کیوں
واصفِ بے ظِلال ہوں مجھ پہ ہوں غم کے سائے کیوں ؟
وصفِ لبِ حضور سے رشکِ گلاب ہے سخن
فن ہے بہارِ نعت میں ، اس پہ خزاں پھر آئے کیوں ؟
جذبِ دروں کی خیر ہو ، شوقِ فزوں کی خیر ہو
ذوق جنوں کی خیر ہو ، کوئی انہیں بُھلائے کیوں ؟
شرم سے کیوں ہوں آب آب ، کیسا سوال کیا جواب ؟
جب ہیں شفیع آنجناب ، خوفِ سزا ستائے کیوں ؟
تیرِ نگہ کے سامنے آہوئے قدر ڈھیر ہے
چاند نہ ٹوٹ جائے کیوں ؟ مہر نہ لوٹ آئے کیوں ؟
پیشِ خضر کلیم کو اذنِ سوال ہی نہیں
پیر کے فعل پر مرید دل میں کبھی نہ لائے ” کیوں ؟
جب اے معظمؔ تہی ، بحرِ کمال ہیں نبی
کاسئہ حرف میں کبھی ان کی ثنا سمائے کیوں ؟