اردوئے معلیٰ

 

میں ہوں، سفرِ شوق ہے، طیبہ کی ہوا ہے

غنچے کی طرح آج دل زار کھلا ہے

 

کچھ دیر کو اے ہم سفرو! پاس نہ آؤ

اک محشر جذبات مرے دل میں بپا ہے

 

اللہ ری رعنائی، بام و درِ طیبہ

جو میرے تصور میں تھی کچھ اس سے سوا ہے

 

ہر سمت وہی نکہت دامان محمد

ہر گام وہی تابش کف پا ہے

 

ہر نقش قدم میں وہ قدم دیکھ رہا ہوں

آنکھوں پہ مری، چاک زمانوں کی ردا ہے

 

قدموں سے سوا میری نگاہیں نہیں اٹھتیں

گو چہرہ انور کی بھی ضو جلوہ نما ہے

 

دیدار میسر ہے، نہیں ہمتِ دیدار

سر سوئے زمیں بارِ ندامت سے جھکا ہے

 

سر کو مگر احساس ہے اک لمس کرم کا

وہ لمس کہ ہر درد سے پیغام شفا ہے

 

اس لمس نے انوار کے در کھول دیے ہیں

وہ دیکھ رہا ہوں کہ جو دیکھا نہ سنا ہے

 

آہٹ ہے فضاؤں میں فرشتوں کے پروں کی

جو موج ہوا آتی ہے جنت کی ہوا ہے

 

اب دیکھیے کب ملتی ہے اس خواب کی تعبیر

میں ہوں، سفرِ شوق ہے، طیبہ کی ہوا ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ