اردوئے معلیٰ

نامۂ تخلیق پر نقشِ بقا، غارِ حِرا

تا ابد رَس گھولتی زندہ صدا، غارِ حِرا

 

آتشیں سورج کی زد میں تھی حجَر کی بے بسی

تن گئی تسکین کی نُوری ردا، غارِ حِرا

 

بے حسی اور جہل کے پنجوں میں جکڑی سوچ پر

علم اور عرفان کا مصحف کھُلا، غارِ حِرا

 

سر بسر اقرا بہ کف مہکا گُلستانِ کرم

مَیں نے سینے پر ابھی لکھا ہی تھا، غارِ حِرا

 

ایک ایسی زندگی بھی ہے حیاتِ نُور میں

جس میں جلتا ہے فقط تنہا دِیا، غارِ حِرا

 

نقش ہیں چھاتی پہ جس کی سیدہ کے نقشِ پا

عُزلتِ خاموش میں قُربت نما، غارِ حِرا

 

سوچتا ہُوں، نُور ہے یا نُور کا احساس ہے

آنکھ سے دل تک رواں موجِ ضیا، غارِ حِرا

 

دیکھتا ہو گا تجھے کعبہ بھی کتنے شوق سے

مہبطِ نُورِ مبیں، کُنجِ عُلا، غارِ حِرا

 

حرف سے ہوتیں نہیں ترقیم تیری طلعتیں

خامۂ احساس پر ہی جگمگا، غارِ حِرا

 

عہدِ رفتہ کی تجلی، عہدِ آئندہ کی ضَو

نعت کی صورت مرے شعروں میں آ، غارِ حِرا

 

روشنی اوراد کرتی ہے کفِ مقصودؔؔ میں

لکھتا ہے جذبِ رواں غارِ حِرا ، غارِ حِرا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات