نام بھی تیرا عقیدت سے لیے جاتا ہوں
ہر قدم پر تجھے سجدے بھی کئے جاتا ہوں
کوئی دنیا میں مرا مونس و غمخوار نہیں
تیری رحمت کے سہارے پہ جئیے جاتا ہوں
تیرے اوصاف میں اک وصف خطا پوشی ہے
اس بھروسے پہ خطائیں بھی کئے جاتا ہوں
آزمائش کا محل ہو کے مسرت کا مقام
سجدۂ شکر بہرحال کئے جاتا ہوں
زندگی نام ہے اللہ پہ مر مٹنے کا
یہ سبق سارے زمانے کو دیئے جاتا ہوں
صبر کرنا ہے تری شان کریمی کو عزیز
میں یہی سوچ کے آنسو بھی کئے جاتا ہوں
ہر گھڑی اس کی رضا پیش نظر ہے اقبال
شکر ہے ایک سلیقے سے جیے جاتا ہوں