ناکام کہیں ایسا مقدر نہیں دیکھا
خوشیوں نے کبھی ہم کو پلٹ کر نہیں دیکھا
ہاں خاک اڑاتے ہوئے موسم تو ملے ہیں
موسم کی ہتھیلی پر گلِ تر نہیں دیکھا
یوں مجھ سے کوئی میرا پتا پوچھ رہا ہے
اس نے کبھی جیسے کہ میرا گھر نہیں دیکھا
دیکھا ہے ابھی چاند نکلتے ہوئے تم نے
بپھرا ہوا بے چین سمندر نہیں دیکھا
کیا ظلم ہے اوجھل ہوئے جاتے ہو نظر سے
میں نے تو ابھی آنکھ بھی بھر کر نہیں دیکھا
یوں محو عبارت ہوئے ہم یاد میں ان کی
پھر دل سے کبھی جھانک کر باہر نہیں دیکھا
منظر یہ میرا شہر ہے سچائی کا مقتل
سچائی کے شانوں پہ کبھی سر نہیں دیکھا