نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں
اِنہی کی ذات سے بس لَو لگائے بیٹھے ہیں
تصورات میں ہر دم انہی کے ہیں جلوے
انہی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں
کبھی تو وصل کی شب ہوگی آپ کی آمد
اسی اُمید پہ خود کو جگائے بیٹھے ہیں
گزر تو ہو گا کسی رہ گزر سے آقا کا
ہر ایک راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں
جمالِ چہرۂ انور جو خواب میں دیکھا
وہی نظارہ نظر میں بسائے بیٹھے ہیں
اے ناز ہو گی مدینے میں حاضری اپنی
دیے اُمید کے ہم تو جلائے بیٹھے ہیں