نبی کے نام سے دل کو قرار آیا ہے
خزاں کے دور میں عہدِ بہار آیا ہے
تمام عمر سکونت کا وہ رہا طالب
نواحِ طیبہ میں جو ایک بار آیا ہے
چمکتے ہیں جو ستارے سے میری آنکھوں میں
دیارِ نور کا ان میں غبار آیا ہے
زمانہ کرتا ہے میرے سخن کی قدر بہت
اسے ہنر کا میرے اعتبار آیا ہے
غمِ جہان کی ہم کو رہی نہ کوئی خبر
چلی ہوائے مدینہ خمار آیا ہے
ہمارے جادہ فکر و نظر پہ ہر ہر گام
نبی کا شہر نبی کا دیار آیا ہے
نثار تجھ پہ خیالِ مدینہ تیرے سبب
ہمارے شعر و سخن میں وقار آیا ہے
سنائی دیتی ہے اک باز گشت کانوں میں
کوئی مدینے سے مجھ کو پکار آیا ہے
وہ بارہ دن تو ہیں اس کی حیات کا حاصل
درِ نبی پہ جو مظہر گزار آیا ہے