اردوئے معلیٰ

نثار چاند ہے ، قربان آفتاب کی دھوپ

ہے خوشگوار عجب روئے آنجناب کی دھوپ

 

اے آفتابِ فصاحت ! فصیح کہتے ہیں

’’ کھلی ہے صحنِ سخن میں ترے خطاب کی دھوپ ‘‘

 

حضور اپنی شفاعت کے سائے میں رکھیے !

جلائے مجھ کو نہ عصیاں کے احتساب کی دھوپ

 

عطائے مہرِ رسالت تو عام ہے لیکن

ہو جیسا صحنِ دل آتی ہے اُس حساب کی دھوپ

 

سبھی نجومِ نبوّت ہیں مستفید اس سے

ملی ہے سب کو مدینے کے آفتاب کی دھوپ

 

جھلس گیا وہ جہنّم کی آگ سے گویا

پڑی ہے جس پہ ذرا آپ کے عتاب کی دھوپ

 

رہے ثنائے محمّد کا سایہ سر پہ مرے

گزار یوں مِرے مولا ! مرے شباب کی دھوپ

 

جسے بھی نورِ خدا سایۂ کرم بخشے

پڑے گی اس پہ نہ ، رب کی قسم ، عذاب کی دھوپ

 

عیاں ہیں روئے معظمؔ سے اس لیے انوار

کہ صحن دل میں ہے عشقِ فلک مآب کی دھوپ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔