اردوئے معلیٰ

نظر کا دھوکہ ہے نام و نمود لا موجود

ترے بغیر نظامِ شہود لا موجود

 

حضور آپ سے قائم ہے ہستیٔ معلوم

حضور خود سے تو میرا وجود لا موجود

 

یہ اب جو تان کے سینہ کھڑا ہے سر پہ مرے

شبِ لقا میں تھا چرخِ کبود لا موجود

 

کہاں سے لاؤں تناسب میں کوئی حرفِ ثنا

ترے جمال کی حد و حدود لا موجود

 

فقط عقیدہ نہیں ہے، خُدائی ضابطہ ہے

کوئی نماز بغیرِ درود لا موجود

 

اسی لیے تو کھڑے ہیں سبھی قطاروں میں

کہ تیرے جیسا کوئی، شاہِ جُود، لا موجود

 

لقائے خاص سے کھینچا گیا خطِ تنسیخ

کہ اِس سے آگے کوئی بھی صعود لا موجود

 

تجھے خُدا نہیں کہنا، نہیں کہا بخدا

سوائے اس کے تمامی قیود لا موجود

 

نگاہِ شوق کے پہرے ہیں حرفِ نعت کے گرد

کسی غزل کا یہاں پر ورود لا موجود

 

وجود باقی ہمارا ہے ’’انت فیہم‘​‘​ سے

جہاں میں ہو گئے عاد و ثمود لا موجود

 

حضور! آپ ہیں مقصودِؔ خالقِ مقصد

بجز تھی آپ کے زیبِ کشود لا موجود

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ