نظر کے ریگزاروں کو متاعِ نقش پا دے دو
میں ہوں تاریک راہوں میں اُجالوں کا پتا دے دو
اس عہد جبر میں ہر سُو محبت کی اذاں گونجے
ہمیں ایسی دعا پھر اے حبیب کبریا دے دو
جہالت کے اندھیروں کی فصیلیں جس سے گر جائیں
مرے ہاتھوں کو ایسا عِلم کا روشن دیا دے دو
پھرے ہیں در بدر اے رحمت عالم کرم کردو
سمیٹو قرب کی چادر میں قدموں میں جگہ دے دو
سنا ہے دامن عصیاں کو دھو دیتے ہیں آنسو بھی
مری آنکھوں کو بھی اک چشمۂ آبِ بقا دے دو
وہ جس پہ چل کے طرز حضرتِ حسّان ملتی ہے
مرے لفظوں کو ایسی شاہراہِ ارتقاء دے دو
لکھے سب پھول جیسے لفظ سوچے چاند سے مضموں
صبیحِؔ نعت گو کو نعت کا لہجہ نیا دے دو