اردوئے معلیٰ

نعتِ احمد ہوئی ہم دم مری تنہائی کی

پردۂ غیب سے یوں شہ نے مسیحائی کی

 

خاکِ راہ شہِ والا پہ فدا ہو جاؤ

بات بتلائی ہے کیا عشق نے دانائی کی

 

شہرِ طیبہ کے مسافر کو یہ اعزاز ملا

خود درِ شاہ کی خوشبو نے پذیرائی کی

 

حُسن دینے لگا اُٹھ اُٹھ کے صدائے تحسین

جب چِھڑی بات رُخ یار کی رعنائی کی

 

کُحلِ خاکِ در سرکار لگا آنکھوں میں

اور بڑھ جائے گی قوّت تری بینائی کی

 

نعت کہتا ہوں تو تکتی ہیں نگاہیں مجھ کو

ورنہ سنتا تھا کوئی شہر میں سودائی کی؟

 

نورِ سرکارِ دو عالم کے جلو میں آکر

بن گئی بات بنو سعد کی اک دائی کی

 

پھول کھل کھل کے بہاروں کے تجھے دیکھتے ہیں

خارِ طیبہ ہے وہ زینت تری رعنائی کی

 

بھیجے آقا کو درودوں کے تحائف میں نے

غم نے جب جب بھی مرے ساتھ شناسائی کی

 

دل نے اک خاص سرور اور سکوں پایا ہے

ذکرِ سرکار میں جب انجمن آرائی کی

 

اس کو ہر ایک زمانے نے بٹھایا سر پر

جس نے سرکار کے قدموں میں جبیں سائی کی

 

گُل نہ ہو پایا کبھی میرا چراغ اُمّید

مثل لائے گا کہاں کوئی اس آقائی کی

 

ان کی رحمت کے تصدق ہوں کہ وقتِ پرسش

لاج رکھ لی گئی مجھ ایسے بھی سودائی کی

 

حشر میں مجھ کو وہ دامن میں چھپائیں ازہرؔ

اک تمنّا ہے یہی ان کے تمنّائی کی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ