نعتِ شہِ دیں کا مجھے یارا تو نہیں ہے
چپ بیٹھ رہوں یہ بھی گوارا تو نہیں ہے
صدیوں سے ہزاروں نے لکھا وصفِ نبی پر
یکجا بھی کریں سب کو تو سارا تو نہیں ہے
چمکا رخِ ہستی ہے زِ انوارِ محمد
مہتابِ جہاں تاب ہے تارا تو نہیں ہے
انسان کے دکھ درد کبھی مٹ نہیں سکتے
بِن اس کی اطاعت کئے چارہ تو نہیں ہے
منظورِ نظر رب کا ہے ہر ایک پیمبر
پر اس کی طرح آنکھ کا تارا تو نہیں ہے
ہے قصۂ طائف کی سماعت سے گریزاں
پتھر کی طرح دل یہ ہمارا تو نہیں ہے
خوشنودی محبوبِ خداوندِ دو عالم
جاں دے کے ملے پھر بھی خسارا تو نہیں ہے
دامانِ نبی تھام لیا حشر میں ہم نے
بخشش کا کوئی اور سہارا تو نہیں ہے
سنگِ درِ اقدس سے اٹھاتا ہی نہیں سر
دیکھیں کہ نظرؔ عشق کا مارا تو نہیں ہے