اردوئے معلیٰ

(شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے عربی نعتیہ قصیدے کے منتخب اشعار کا آزاد ترجمہ)

 

۱۔ شبِ تاریک میں تارے چمکتے
ایسے لگتے ہیں
کہ جیسے اژدہے کی (دونوں) آنکھیں ہوں
(اگر کچھ اور سمجھیں ہم تو کہہ دیں) بچھوؤں کے سر
۲۔ مصیبت میں کسی کا دل (غموں) سے
بیٹھ جائے تو وہ صحراؤں،بیابانوں (کی وسعت میں بھی رستے)
تنگ پاتا ہے
۳۔ مجھے (بھی) پے بہ پے آ کر مصائب نے
ہر اک راحت، ہر اک آرام سے (اکثر) جدا رکھا
۴۔ دبوچا آ کے جب مجھ کو کسی افتاد نے، ہر سمت سے۵۔ تو میں نے دوڑائی نظر
تا،دیکھ پاؤں، کوئی بھی ایسا معاون
جس کے دامن میں پَنَہ ٭ لے کر مآلِ خوف سے
بچ کر نکل جاؤں!
۶۔ تو کوئی بھی نظر آیا نہیں مجھ کو
مگر محبوبِ رَبّ العالمیں یعنی محمد مصطفی
جو برگزیدہ (اور پاکیزہ تریں) اوصاف رکھتے ہیں!
جو رَبّ کے (آخری) پیغامبر بھی ہیں!
۷۔ جو مشکل وقت میں
آفت رسیدوں کی خبر گیری بھی کرتے ہیں
(گناہوں سے اگر) توبہ کرے کوئی تو، گھر ان کا ہی
اِک شاداب گلشن، مغفرت کا ہے
۸۔ وہ دن، پُرہَوْل دن (ہاں) جس کی دہشت سے
سفید ہو جائیں گے موئے سیہ فوراً
وہی ملجا و ماویٰ ہوں گے ان کا،خوف سے جو کانپتے ہوں گے!
۹۔ وہ دن جب آئے گا!
سارے بنی آدمؑ
جنابِ نوحؑ سے، موسیٰؑ سے، اور آدمؑ سے چاہیں گے مدد(لیکن وہ سارے انبیاء خود) ابتلا کی ساعتوں سے لرزہ (براندام)
ہی ہوں گے!
۱۰۔ (یقینا) ایسے موقعے پر رسول اللہ ہی خود اپنے رَبّ سے ملتجی ہوں گے
(گنہگاروں کی وہ اس سخت گھاٹی میں) شفاعت بھی کریں گے
بخششوں کے در بھی (بے شک) وا کرا دیں گے!
۱۱۔ وہاں سے آپ پھر مسرور لوٹیں گے!
انہیں رحمن پھر اعلیٰ مراتب سے نوازے گا!
۱۲۔ (محمد مصطفی بے شک ہیں ایسے) خانوادے سے
کہ اسمٰعیل جس کے (جدِ امجد ہیں)!
اثر (اخلاف پر) ہوتا ہے اکثر خاندانوں کا!
(نبی) فرزند ہیں ایسے گھرانے کے
کہ جو اشراف میں (سب سے نمایاں ہے)
لوئی غالب کی نسلِ پاک سے ہیں یہ!
۱۳۔ (رسولِ پاک ہی تو ہیں) بشارت جن کے آنے کی
جناب اِبن مریمؑ نے، بڑی واضح علامت کے حوالے سے سنا دی تھی!
(وہ کہتے تھے، رسول اب ایسا آئے گا جو) اس درجہ بہادر (اور نڈر) ہوگا!
کہ وقتِ جنگ بھی میدان میں شاداں و فرحاں (وہ جری) ہوگا!
۱۴۔ (کتاب اللہ نے جن کی طبیعت کی متانت کی زمانے کو خبر دی تھی)!مزاج ان کا درشتی سے مُبَرَّا ہے
وہ بازاروں میں ہرگز چیخنے والے نہیں ہیں (وہ مہذب ہیں)!
۱۵۔ وہی ہیں یہ نبی بے شک
کہ جن کے جگ میں آنے کے لیے
تعمیرِکعبہ کی گھڑی (رب سے)
خلیل اللہ (علیہ السلام)نے بھی التجا کی تھی، دعا کی تھی
وہ کعبہ جس میں ہوتی ہیں مرادیں (خلق کی) پوری
۱۶۔ (نبی ) خوش رو (ہیں) گورا رنگ ہے قد بھی میانہ ہے
گھنے ابرو ہیں (ان کے) اور چوڑے (ان کے) شانے ہیں!
۱۷۔ (بہت) خوش رنگ (ہیں)
چہرے پہ (بھی بے حد) ملاحت ہے
کشادہ چشم ہیں، خندہ جبیں (بھی) ہیں!
فصاحت بھی زباں کی ایسی پائی ہے، کہ جس میں شائبہ بھی کوئی
لکنت کا نہیں ہرگز
بیاں بھی عجز (کے ہر عیب) سے یکسر معرا ہے!
۱۸۔ وہ ہیں اللہ کی مخلوق میں، سیرت میں اور صورت میں کامل بھی
یگانہ فرد بھی وہ ہیں
بوقتِ ابتلا وہ سب کے (بے اندازہ حامی) ہیں۱۹۔ سخی بے مثل بھی ہیں
اور دل کے بھی بڑے ہیں
ہاتھ بھی ان کا کھلا ہے اور بخشش پر تُلا بھی ہے
۲۰۔ وہی اشراف میں بھی سب سے اعلیٰ (اور افضل) ہیں
جہاں بھی حوصلے درکار ہوں وہ خود ہی بڑھتے ہیں
بڑے باعزم و ہمت ہیں
(مرے سرکار ) عظمت کے ہر اک منصب کے لائق ہیں
۲۱۔ جہاں دیکھو کوئی گھمسان کا رَن ہو
بڑی آفت کی ساعت ہو
وہاں آکر زمانے کے بہادر بھی
(مرے آقا ) کے دامن میں پناہیں چاہتے ہوں گے
۲۲۔ ستایا قوم نے ان کو
جہالت اور بے عقلی سے
رستے روک کر دِیں کے
۲۳۔ دعائیں پھر بھی ان کے واسطے (آقا نے) فرمائیں
ہدایت یاب ہونے کی
اگرچہ ان کے ہاتھوں سختیاں جھیلی تھیں (آقا ) نے
۲۴۔ برا ہو،ایسے لوگوں کاجو (پیہم) شرک کرتے ہیں
عیوب ان کے بہت ہیں
اور بے حد بدتریں ہیں وہ
۲۵۔ برا ہو،ایسے لوگوں کا
جو رَبّ کے دِین میں تحریف کرتے ہیں
مسائل اپنے دل سے، صرف اپنے منصبوں ہی کا بھرم رکھنے کو
گھڑتے ہیں
۲۶۔ برا ہو، ایسے لوگوں کا
جو اپنے ہی نبی کی شان کو رَبّ سے ملا کر جرم کرتے ہیں
وہی مجرم ثنا خواں، اپنے رَبّ کی شان میں تخفیف کر کے
شانِ احمد کو بڑھا کر
پیش کرتے ہیں
۲۷۔ برا ہو، ایسے لوگوں کا
جنہیں کسریٰ کے محصولات نے مارا
(کہ جن کی) عقل ان سے چھِن چکی تھی (دین سے پہلے)
۲۸۔ وہ بداعمالیوں ہی کے سبب تھے مستحق
کتنے عذابوں کے
(مگر سرکار کے صدقے) انہیں رحمت نے ڈھانپا
اور ان کی دست گیری کی
۲۹۔ (کھلا رحمت کا در اِس طور اُن پر) پھر
کہ (ان کے ساتھ کے) اعلیٰ قبیلے میں
ہوئے مبعوث اِک ایسے نبی
جو صدق پیکر تھے
کہ جن کی ذات پر (بعثت کے اس اعلان سے پہلے بھی ان سب کا بھروسہ تھا)
کوئی الزام ان کے سر کبھی ایسا نہ آیا تھا، کہ ان کی بات میں کچھ
جھوٹ شامل ہو
۳۰۔ گواہی میں بھی دیتا ہوں
کہ رَبّ نے اپنے بندے کو نرا حق دے کے بھیجا ہے
عمل میں جس کے ریب و شک کی گنجائش نہیں کوئی
۳۱۔ دلیل اس بات کی
ہر عقل والے کے لیے
مضبوط تر یہ ہے
کہ اس دِیں کی شریعت کا جو چشمہ ہے
بڑا شفاف بھی ہے اور ستھرا بھی
۳۲۔ (نبی کے خُلق کی) رفعت مُسلَّم ہے
اُنہی کو اُن کے رَبّ نے نعمتیں ساری عطا کر دیں
دلوں کو جوڑنے والی نبوت ان کو بخشی ہے
وہ قوت ان کو بخشی ہے
جو سب (ادیان اور احزاب پر) غالب ہی ٹھہری ہے
۳۳۔ ملی روشن دلیل ایسی
کہ ان کے قول کی تصدیق ہی ہوتی گئی (پیہم)
ہر اک پیر و جواں نے اس کی (آپس میں) روایت کی
۳۴۔ شِفاء پائی مریضوں نے (محمد ) کی دعاؤں سے
مریض ایسے کہ جو محروم تھے یکسر غذاؤں سے
۳۵۔ وہ بکری اُمِّ معبد کی
کہ جس کے تھن بھی سوکھے تھے (بہت، جو خود بھی لاغر تھی)
(نبی کے دستِ شفقت پھیرنے کا یہ نتیجہ تھا کہ) دھاریں دودھ کی نکلیں
(اسی لاغر سی بکری نے کیا سیراب پھر سب کو)
۳۶۔ سُراقہ ابن جعثم (نے جسارت حد سے بڑھ کر کی)
تو اس کے اسپ کے سم دھنس گئے فی الفور مٹی میں
حدیث اس واقعے کی ہم نے پائی اِبن عازبؓ سے
۳۷۔ ہوا جو ہاتھ بھی میرے نبی کے ہاتھ سے مس
وہ مہک اٹھا، (عجب پاکیزہ) خوشبو سے
پھرا جس سر پہ دستِ مہرباں (سردارِ عالم کا) کبھی بھی بال
اس سرپر کوئی ابیض نہیں دیکھا
۳۸۔ محبت سے پکارا اُن کو رَبّ نے پیارے ناموں سے
کہ جن ناموں سے اوصافِ حمیدہ ہی جھلکتے ہیں
انہی ناموں سے آقا کے مناقب بھی چمکتے ہیں
۳۹۔ جزائے خیر دے اللہ سارے ساتھیوں کو بھی
جو ان کے ساتھ ہر ساعت رہے (اور جاں نثارانِ محمد میں جگہ پائی)
۴۰۔ جزائے خیر دے اللہ ان کی آلِ اطہر کو
کہ جن کی عظمتیں (ہر عہد کے لوگوں میں) قائم ہیں
خوارج کو اگر اس بات سے تکلیف ہو تو ہو!!!

 

(شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قصیدہ ڈاکٹر عبداللہ  عباس ندوی کی کتاب عربی میں
نعتیہ کلام سے لیا گیا ہے۔ منظوم ترجمہ بھی ڈاکٹر عبداللہ  عباس ندوی کے منثور ترجمے
کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ شعری ضرورت کے تحت جو اضافے کیے گئے ہیں۔ انہیں بریکٹ
میں لکھ دیا ہے۔ اس کے باوجود اصل قصیدے کا ترجمہ کرنے کی بجائے
ترجمانی کی گئی ہے… عزیزؔ احسن) (آغاز ۸ ؍ رمضان المبارک ۱۴۲۸ھ،
اور تکمیل ۹ ؍ رمضان المبارک ۱۴۲۸ھ مطابق ۲۲ ؍ ستمبر ۲۰۰۷ء، بروز ہفتہ)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ