نعت لکھتا ہوں تو لگ جاتے ہیں اعرابِ نور
میم لکھتے ہی امڈ آتے ہیں سیلابِ نور
آنکھ لگتے ہی تری دید عطا ہوجائے
کاش ایسا بھی عطا ہو مجھے اک خوابِ نور
وہ ہوں صدیق و عمر یاہوں غنی و حیدر
سروں کے تاج ہیں ، تیرے سبھی اصحابِ نور
وقتِ رخصت بھی مواجہ پہ نگاہیں ہیں جمی
دل میں بجتی ہے مرے کیسی یہ مضرابِ نور
اپنی پلکوں سے ترے در پہ ہوں دیتا دستک
ہوں عطا بہرِ شفاعت مجھے اسبابِ نور
موجِ طوفان کے حلقے میں ہے سارا منظرؔ
میری کشتی کو عطا ہو کوئی گردابِ نور