چھٹ گئیں محفلیں اور گھر رہ گئے
ہم تری دُھن میں محوِ سفر رہ گئے
ایک دہلیز چومی تھی جھک کے کبھی
اور پھر عمر بھر دربدر رہ گئے
رقص کرتے ہوئے ہم دھواں ہو گئے
دم بخود ذوقِ اہلِ نظر رہ گئے
رقص کیا تھا کہ وحشت کی پرواز تھی
کہ پروں کے تلے بحر و بر رہ گئے
آرزو شہرِ جاناں کی رہبر ہوئی
خوابِ دشتِ اماں ہمسفر رہ گئے
جستجو ایک تتلی سی اڑتی پھری
ہم تعاقب میں شام و سحر رہ گئے
آخرش ایک دشتِ اماں پا لیا
اور مسرت سے دل جھوم کر رہ گئے
آنکھ میں شمع روشن ہوئی شوق کی
اور مسافت کے پر ہول ڈر رہ گئے
دل گرفتہ جو اس بزم میں آئے تھے
ہم یہاں پر بھی دل تھام کر رہ گئے
دن چڑھے رنگ اور نور کی محفلیں
خیمہِ ابر میں رات بھر رہ گئے
حسن ایسا کہ تصویر ہو نہ سکے
دست بستہ یہ دستِ ہنر رہ گئے
ایک محمل کہ کھلتا رہا بارہا
لوگ منت کشِ رہگزر رہ گئے
ایک مستی میں ڈوبے ہوئے روز و شب
ایک عالم میں شام و سحر رہ گئے
پر فصیلوں کے باہر تھا لشکر کوئی
ہم تھے مدہوش سو بے خبر رہ گئے
ایک دم ایک شب خوں پڑا کیا کہیں
جس سے افلاک زیر و زبر رہ گئے
بھاگتوں کو تو خود موت نے جا لیا
کٹ مرے جو کہ سینہ سپر رہ گئے
تیز رو زندگی دفعتاً اڑ گئی
لوگ لپکے تھے بڑھ کے مگر رہ گئے
کون گنتا کہ جب رن پڑا شہر میں
کتنے اشجار تھے بے ثمر رہ گئے
کتنے ابدان زخموں سے چھلنی ہوئے
اور میدان میں کتنے سر رہ گئے
کتنے خورشید ڈوبا کیے خاک میں
راکھ میں کتنے رشکِ قمر رہ گئے
شہر کا شہر شب بھر میں خالی ہوا
یا پرندے بچے یا شجر رہ گئے
چند دن تو بلاوے کی امید پر
سارے طیور بھی بام پر رہ گئے
آخرش ان کو مایوس ہونا پڑآ
جب کہ نغمے سبھی بے اثر رہ گئے
اڑ گئے سارے پنچھی نئے دیس کو
پیڑ کی گود میں چند پر رہ گئے
راس آ نہ سکہیں شوخ پردازئیاں
نوحہ گر تیرے پھر نوحہ گر رہ گئے