نور و حضور کا یہ عجب اہتمام ہے
آنکھوں کے سامنے در عالی مقام ہے
حاضر ہوں بارگاہ پیمبر میں آج میں
ٹھہرا ہوا سا سلسلہ صبح و شام ہے
میں آ گیا ہوں روضہ اقدس کے سامنے
اے دل ذرا ٹھہر کہ ادب کا مقام ہے
دربار نور اور یہ مجھ سا گناہگار
حیراں ہے آنکھ، لب پہ درود و سلام ہے
آنکھوں سے چشمہ دل بیتاب ابل پڑا
تسنیم و سلسبیل کا طرز خرام ہے
دل پر ہے اُس کا جلوہ دربار نور پاش
ہاتھوں میں رخش وقت کی زرّیں زمام ہے
ہے اصل آرزو در اقدس کے صبح و شام
باقی جو ہے تمام، تمنائے خام ہے
یہ کیف و کم ،یہ نور و حضور اور یہ سوز و ساز
ہر لمحہ جمال کا حاصل دوام ہے
خالد! ریاض جنہ کی ہر ساعت جمیل
صحن دل و نگاہ میں محو خرام ہے