اردوئے معلیٰ

نور کی اوٹ کے مابعد زیارت ہو جائے

یا نبی خواب دریچے پہ عنایت ہو جائے

 

پورے الفاظ سے بنتی نہیں تصویرِ جمال

اذن ہو جائے تو لکنت مری مدحت ہو جائے

 

کاسۂ فہم میں رکھ دے کوئی ادراک کی بھیک

چاہتا ہوں کسی صورت تری صورت ہو جائے

 

قریۂ جاں میں ترے قرب کے موسم مہکیں

دید کے رنگ کھِلیں، یاد کی نکہت ہو جائے

 

ایک ہی لمحے پہ رُک جائے زمانوں کا سفر

ساعتِ دید ہی بس دیدۂ حیرت ہو جائے

 

پھر مدینے کے تصور نے کیا ہے بے خود

عرض ہے اے مرے محبوب، اجازت ہو جائے

 

دید کے خواب گھروندوں میں ہیں جگنو چمکے

وہ اگر چاہیں تو مقصودؔ حقیقت ہو جائے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ