نور کی شاخِ دلربا اصغر
دین پر ہو گیا فدا اصغر
نامِ اصغر کو پھونک کر دیکھا
ننھے بچوں کی ہے دوا اصغر
ایک مغموم حوصلے والا
سب سے آگے نکل گیا اصغر
تیرِ حرمل جو کھا کے گردن پر
چار سو کر گیا ضیا اصغر
دے کے اپنا لہو وہ کربل کو
لخلخہ کر گیا فضا اصغر
تیر ڈالا کماں میں حُرمل نے
تو سکینہ نے دی صدا اصغر
دفن کر کے زمینِ کربل میں
رو دیا ” کوہ صبر کا ” اصغر
جس سے روشن خدا کا مذہب ہے
کبریا کا ہے وہ دیا اصغر
دینِ مرسل پہ شیر خواروں میں
جان دینے کی ابتدا اصغر
کیا وفا مصطفٰی سے ہوتی ہے ؟
کربلا میں دکھا گیا اصغر
میرا قائم سلام ہے اُس پر
تشنہ لب جو فدا ہوا اصغر