اردوئے معلیٰ

نویدِ طیبہ رسی جب کبھی نہیں آئی

گلِ مراد پہ بھی تازگی نہیں آئی

 

جو بخشے خوابوں کو انوارِ سیدالکونین

ہنوز آنکھوں میں وہ نیند ہی نہیں آئی

 

بشر تو اب بھی بھٹکتا ہے ظلمتوں میں یونہی

نبی کے دیں کی جہاں روشنی نہیں آئی

 

قریبِ منبرو محراب دل پکار اٹھا

’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘٭

 

حصولِ معرفتِ سیدالبشر کے بغیر

عمل میں بھی رَمَقے زندگی نہیں آئی

 

خوشا مدینے پہنچنے کی آرزو ہے جواں

خوشا کہ دل کی تڑپ میں کمی نہیں آئی

 

عزیزؔ ! دعویِ عشقِ رسول جھوٹا ہے

اگر عمل میں ہی شائستگی نہیں آئی

 

"٭فیض احمد فیض…صبحِ آزادی، نسخہ ہائے وفا…ص۱۱۶
جمعرات: ۲۳؍رجب المرجب ۱۴۳۳ھ / ۱۴؍جون۲۰۱۲ء

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ