نُور لمحات میں اب عشق سویرا ہو گا
دل کی بستی میں فقط آپکا ڈیرا ہو گا
دل کی اے میرِ سفر مجھ کو خبر کوئی نہیں
درِ آقا سے ملا ہے تو یہ میرا ہو گا
دمِ رُخصت مرے آقا یہ یقیں ہے مجھ کو
ذہن میں بس تری یادوں کا بسیرا ہو گا
سرورِ دین کی اُلفت ہے اگر قبلہِ جاں
بالیقیں خاتمہ ایمان پہ تیرا ہو گا
پیکرِ نُور کی جب جلوہ نمائی ہے وہاں
کیسے یہ مان لوں مدفن میں اندھیرا ہو گا
شافعِ حشر کی نسبت مرے کام آئے گی
جب مجھے حشر کے آلام نے گھیرا ہو گا
تری رحمت کے سمندر سے بٹے گا جس دم
مجھ گنہگار کو اِک قطرہ بہتیرا ہو گا
بزمِ سرکار میں دیکھی ہے حقیقت یہ شکیلؔ
جتنا جھک جائے کوئی اتنا وڈیرا ہو گا