اردوئے معلیٰ

نہ انعاماتِ عقبیٰ سے ، نہ دنیائے دَنی سے ہے

غرض ہم کو جمالِ یار کی جلوہ گری سے ہے

 

کسی کو ساری دنیا میں کہاں اتنی کسی سے ہے ؟

رسول پاک کو جتنی محبت امتی سے ہے

 

مقلّد حضرت حسان کا ہوں فقہِ شِعری میں

’’ مری پہچان بس نعت رسول ہاشمی سے ہے ‘‘

 

مدد فرما اے نعلِ فاتحِ بدر و احد ! میری

کہ خود پِس جائے جو دشمن کا لشکر دانت پیسے ہے

 

ثنا تصویر کی مدح مصور ہے حقیقت میں

لہٰذا نعتِ احمد حمدِ خلاقِ غنی سے ہے

 

ظہورِ جاہ و حشمت ہو تو رب جانے ہو کیا عالم ؟

بقیدِ رعب جب عالم تمہاری سادگی سے ہے

 

تجلیِ صفاتی کا محل یونہی نہیں زاہد !

شرف یہ طور کو حاصل کمالِ عاجزی سے ہے

 

سفالت خو ہے خود گرچہ مگر خامہ معظم کا

عُلو آثار ہو کیونکر نہ ، جب نسبت علی سے ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔