نہ سوچا تھا کہ یوں دیوار ہو گا
یہ رستہ اس قدر دشوار ہو گا
خبر کیا تھی کہ سایہ چھین کر وہ
شجر بھی صورتِ دیوار ہو گا
لبِ دریائے وحشت دل کھڑا ہے
مری انگلی پکڑ کر پار ہو گا
ابھرتی رہ تمنائے محبت
وہ منظر اب کہاں بیدار ہو گا
میں جب آزاد ہوں گا اس گماں سے
یقیناً تو مرا پندار ہو گا
کہانی بڑھ رہی ہے اس طرف اب
جہاں اپنا نیا کردار ہو گا
خرابی ہے یہی خواہش میں اپنی
اگر نکلی نہیں ، آزار ہو گا
بتانا تھا مجھے بِکنے سے پہلے
ترا آخر کوئی میعار ہو گا
مری تو ساری دنیا ایک دل ہے
ترا تو دل بھی دنیا دار ہو گا