نہ سُنی تم نے ، کوئی بات نہیں
بات یوں بھی نہیں تھی کہنے کی
حاتمِ عشق کی حویلی بھی ،
اب کہاں رہ گئی ہے رہنے کی
ڈوبنا کون چاہتا ہے مگر؟
اور ہمت نہیں ہے بہنے کی
اب بھرم ٹوٹتا ہے ، تو ٹوٹے
بے دلی اب نہیں ہے سہنے کی
اور پھر ، تیرگی میں ڈوب گئی
جھلملاہٹ ، تمہارے گہنے کی