نہ قوسِ قزح نہ رنگِ گُل و گلزار کی باتیں ہوتی ہیں
حورانِ ارم میں بس تیرے رخسار کی باتیں ہوتی ہیں
قرطاس پہ حُسنِ دنیا کے نقشے بھلا کیسے بن جائیں
مابینِ خیال و قلب و قلم سرکار کی باتیں ہوتی ہیں
ما اوحٰی کہہ کے خالق نے دنیا سے گویا پوچھا ہے
قوسین سے بڑھ جائیں تو کیا اغیار کی باتیں ہوتی ہیں ؟
ان چاند ستاروں میں اب بھی معراج کی یادیں زندہ ہیں
ہر رات اکٹھے ہوتے ہیں، سرکار کی باتیں ہوتی ہیں
مفلوک الحال غریبِ وطن اس امتِ خستہ جاں میں اب
شبیر! تمہارے بچوں کے کردار کی باتیں ہوتی ہیں
ہو ربط جو گنبدِ خضرٰی سے تو فکر بھی زندہ رہتی ہے
بے ربطِ مدینہ جتنی ہیں بے کار کی باتیں ہوتی ہیں
خوش ہو جاؤ ارے دیوانو! میں نے یہ سنا ہے زیرِ لحد
یا رب کا پوچھا جاتا ہے یا یار کی باتیں ہوتی ہیں
میں ہٹ جاتا ہوں ایک طرف جب سامنے گنبدِ خضرٰی ہو
پھر گنبدِ سبز و چشمِ تر میں پیار کی باتیں ہوتی ہیں
مجھے میرے طبیب بھی کہتے ہیں جو کچھ تُو تبسم کہتا ہے
یوں لگتا ہے کسی طیبہ کے بیمار کی باتیں ہوتی ہیں