اردوئے معلیٰ

نیم در نیم ہوا، ریت میں سوکھا دریا

آتے آتے مری بستی ہوا صحرا دریا

 

اپنی مٹی میں گُہر اتنے کہاں سے آئے

ایسے لگتا ہے یہاں سے کبھی گذرا دریا

 

ایک دو روز کی بارش سے نہیں کچھ ہونا

پیاسی مٹی کی ضرورت تو ہے بہتا دریا

 

برف زاروں میں شب و روز جلا کر اپنے

قطرہ قطرہ میں نے پگھلا کے بنایا دریا

ق

باندھ لو بند شراکت کے رواداری کے

روک لو روٹھ نہ جائے کہیں چلتا دریا

 

یہ تو املاک ہے سبزے کی، گلوں کی جاگیر

لڑنا کیسا کہ نہ تیرا ہے نہ میرا دریا

 

یہ تو بادل کی وراثت ہے، زمیں کا صدقہ

جتنا تقسیم ہو اُتنا ہے یہ اچھا دریا

 

اے مرے آبِ وطن تجھ کو دعا پیاسوں کی

تیری موجوں کی روانی رہے دریا دریا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔