واعظ سے دل بُرا نہ کرو ، پارسا ہے یہ
بس لذتِ حیات سے ناآشنا ہے یہ
صحرائے بازگشت میں اپنی ہی چاپ سُن
اے جُرمِ آرزو تری شاید سزا ہے یہ
گلچین و باغباں نے بھی آہٹ سنی مگر
کلیاں پکار اٹھیں کہ بادِ صبا ہے یہ
دنیا میں دامنوں کی کمی ، کیا مذاق ہے
چپکے سے آنسوؤں نے کہا ، تجربہ ہے یہ
پیمانے سانس روکے ہیں ہونٹوں کی بھیڑ میں
کچھ منہ سے بولتی نہیں کیسی گھٹا ہے یہ