اردوئے معلیٰ

وجودِ عالَمِ امکاں کا ہیں وہی مصدر

نگاہِ حق کا فقط ذاتِ مصطفیٰ محور

 

ہے ان کے حُسن کے صدقے سے ضو فشاں خاور

اُنھی سے پاتے ہیں خیرات نجم و شمس و قمر

 

اَنہیں روا نہیں اُمت پہ آپڑے کوئی غم

فقط اِسی لیے سجدے میں سر رکھا شب بھر

 

وہ جانتے نہیں دشمن کو بھی دغا دینا

دیا گیا تھا علیؓ کو اسی لیے بستر

 

کہا اُنھی کو ’’رَفَعْنَا‘‘ خدائے بر تر نے

ہے جن کا مرتبہ ہر اک رسول سے بڑھ کر

 

جو سن سکو تو سنو ! دشمنِ نبی کے لیے

کلامِ حق میں لکھا ہے ’’زَنِیْم‘‘اور’’اَبْتَرْ‘‘

 

عزیز اُن کی رضا ہے خدا کو ہر لمحہ

عیاں کیا ہے’’فَتَرْضٰی‘‘ نے راز یہ مجھ پر

 

بتا رہا ہے یہ’’ جَائُوْکَ ‘‘ سے کلامِ خدا

رضائے حق کا ہے رستہ مِرے حبیب کا در

 

سب انبیا کے لبوں پر ہی ’’اِذْھَبُوْا‘‘ہو گا

’’اَنَا لَھَا‘‘ جو کہیں گے تو وہ شہِ محشر

 

نہیں ہے اس کے سوا حشر کی کوئی غایت

کہ ہو سبھی پہ عیاں رُتبۂ نبی سرور

 

اٹھا جو مسئلہ تنصیبِ سنگِ اسود کا

تو حل کیا تھا اُنھوں نے بچھائی جب چادر

 

یہ سر بھی سر ہے اگر تو فقط اُسی لمحے

کٹے رسول کی حُرمت پہ جب یہ سر ازہرؔ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ