وحشتِ قریۂ دل میں کوئی طلعت ہو جائے
یا نبی خواب دریچے پہ عنایت ہو جائے
یہ کرم تھا کہ مدینے مری قسمت پہنچی
اب یہ حیرت ہو مدینہ مری قسمت ہو جائے
آج پھر مصحفِ مدحت سے نیا نور ملے
آج پھر چہرۂ قرآں کی تلاوت ہو جائے
ایک تدبیرِ مسلسل ہے مدینے کا سفر
اذن مل جائے تو تدبیر کو حیرت ہو جائے
اس کے ما بعد کوئی حرفِ عقیدت باندھوں
مطلعِ نعت اگر آیۂ رفعت ہو جائے
پورے احساس میں کھل اُٹھیں نئے خواب گلاب
موسمِ دل کو تری خاک سے نسبت ہو جائے
جادۂ شوق پہ رکھے ہوئے دل، سوچتا ہوں
ان کے نعلین کی موہوم زیارت ہو جائے
ساعتِ خواب کو رہتا ہے عجب شوقِ نیاز
خامہ و نطق سے پہلے تری مدحت ہو جائے
جیسے مقصودؔ سحر ہوتی ہے ہر شام کے بعد
کیا خبر خواب سفر پھر سے حقیقت ہو جائے