’’وَالضُحٰی‘‘ پر گُفتگُو ہونے لگی
روشنی سی چار سُو ہونے لگی
آپ سے منسوب ہے ، سو اِس لئے
بے ہنر کی آبرو ہونے لگی
آپ کے در پر ٹِھکانہ مل گیا
’’پھر ہماری جُستجو ہونے لگی‘‘
درد مندوں کا مسیحا آ گیا
ہر جگہ یہ گُفتگُو ہونے لگی
خواب میں تھی حاضری کی آرزو
شُکر ہے ! وہ رُوبرو ہونے لگی
ذِکر تیرا رب نے اُونچا کر دیا
تیری مدحت کُو بکُو ہونے لگی
جیسی دیکھی حاضری تھی خواب میں
جاگتے میں ہُو بہُو ہونے لگی
اشکباری جب وطیرہ بن گیا
آنکھ تب سے باوضُو ہونے لگی
جب ہوا صلِ علٰی وردِ زباں
عشقِ احمد میں نمُو ہونے لگی
حاضری کا مل گیا مُژدہ جلیل
چشمِ دل پھر قبلہ رُو ہونے لگی