وُجُودِ شاعرِ مِدحت پہ خوف ہے طاری
صراطِ نعت ہے تلوار ایک دو دھاری
حرُوفِ نعت میں ہَوں کیفیات بھی شامل
یہاں عرُوض کی کافی نہیں ہے فن کاری
گُھلی ہے رُوح میں سرکار آپ کی چاہت
وریدِ جاں میں رواں ہے بہ شکلِ سر شاری
حُضُور! بھیجا ہے جاؤوک کہہ کے مالک نے
پڑا ہے آپ کی چوکھٹ پہ ایک اقراری
یقیں ہے حشر میں رُسوا نہ ہونے دے گی مجھے
مرے شفیع، شہِ بحر و بر کی ستّاری
مرے خمیر میں ہے اہلِ بیت کی اُلفت
مری سرشت ہے سادات سے وفا داری
نکل ہی آیا غموں میں بھی لُطف کا پہلو
سنا ہے جب سے، وہ کرتے ہیں سب کی غمخواری
میانِ حشر مری چھب ہو دیکھنے والی
پکارا جاؤُں اگر نعت کا کرم چاری
مٹھاس ہونٹوں پہ اشفاق روز افزوں ہے
زباں پہ جب سے ہُوا وردِ یا نبی جاری