وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں
جہاں کبھی نہ سلاطین کے گماں جائیں
ہوئے نہ منّتِ اغیار کے کبھی قائل
’’ فقیر آپ کے در کے ہیں ہم کہاں جائیں ‘‘ ؟
ثنائے صاحبِ خلقِ عظیم کا ہے اثر
کہ آئیں خوبیاں ناعِت میں ، خامیاں جائیں
ترے غلام کلیمی کے بِن ترے صدقے
بناتے راستے دریا کے درمیاں جائیں
ثنائے جانِ حلاوت ہے ورد جب اپنا
تو پھر حیات سے کیونکر نہ تلخیاں جائیں
دخولِ خلد سے پھر ان کو کون روکے گا
اگر حضور کہیں بہرِ مجرماں ” جائیں ”
بس ایک ہی تو درِ رحمتِ جہاں ہے جہاں
سنانے قصّہٕ آلام بے زباں جائیں
عروجِ محفلِ حسان کو نظر نہ لگے
حضور اہل ثنا کی نہ یاریاں جائیں
مشاعروں میں فقط اپنا احترام نہیں
بہ فیضِ نعت معظم ہیں ہم جہاں جائیں