وہم و گمان رہ گئے ، وجدان رہ گیا
نازل ہوئے شکوک تو ایمان رہ گیا
تیری ریاضتوں نے فرشتہ کیا شکار
مجھ میں مرے لیے مرا شیطان رہ گیا
عہدِ شکست میں مری پہچان رہ گئی
عہدِ شکست ہی مری پہچان رہ گیا
تو مانگتا ہے میرا حوالہ ثبوت سے
میں ہوں کہ اپنے آُپ کا امکان رہ گیا
ہارا ادھیڑ بن سے یہ نازِ سخنوری
سامع نہیں ملا تو یہ دیوان رہ گیا
ایسا کیا ہے رقص دلِ خام کار نے
عشقِ تماش بین بھی حیران رہ گیا
اہلِ جہاں خدا ہوئے جاتے ہیں اور میں
روئے زمیں پہ آخری انسان رہ گیا