اردوئے معلیٰ

وہی روحِ روانِ بزمِ امکاناتِ دو عالَم

وہی غایت، وہی مصدر، وہی منبع، وہی مَقْسَم

 

جو مجھ سے بھی زیادہ، میری لغزش پر ہے افسردہ

بجز اُس کے کہوں کس کو، کوئی ایسا نمی دانم

 

اُسی کے در سے جُڑ جاتی ہے ہر نسبت عطاؤں کی

وہی جوّاد و قاسم ہے، وہی الطف، وہی اکرم

 

عجب اِک دیدنی عالَم ہے اُس کی دید سے پہلے

ز جاں رفتم، بدل رقصم، بدل رقصم، ز جاں رفتم

 

گزشتہ رات یوں تیرا تصور آنکھ میں چمکا

کلی کے دستِ حیرت پر ہو جیسے قطرۂ شبنم

 

جہانِ نعت میں مابینِ حُزن و لطف رہتا ہُوں

عطائے حرف ہوتی ہے، کبھی رُک کر، کبھی پیہم

 

دَمِ آخر زیارت کا اگر سامان ہو جائے

حیاتِ جاوداں پا لے دلِ پژمردہ و بے دَم

 

سخی اپنے کرم کا بُردۂ مدحت عطا کر دے

فصیلِ ضبط سے اُونچا ہُوا ہے کرب کا ماتَم

 

سُنا ہے آپ ٹوٹے آئنے بھی جوڑ دیتے ہیں

اغثنی یا رسول اللہ ! پریشانم ، پریشانم

 

مدارِ زیست قائم ہے اُسی دستِ عنایت پر

اُسی دستِ عنایت سے ہے بے غم کاسۂ منعَم

 

وہیں ہے منعطف مقصودؔ، شوقِ سجدۂ ہستی

’’محمد شمعِ محفل بُود شب جائے کہ مَن بُودَم‘​‘​

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات